دل ٹھہرا ایک تبسم پر کچھ اور بہا اے جان نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل ٹھہرا ایک تبسم پر کچھ اور بہا اے جان نہیں
by نظیر اکبر آبادی

دل ٹھہرا ایک تبسم پر کچھ اور بہا اے جان نہیں
گر ہنس دیجے اور لے لیجے تو فائدہ ہے نقصان نہیں

یہ ناز ہے یا استغنا ہے یا طرز تغافل ہے یارو
جو لاکھ کوئی تڑپے سسکے فریاد کرے کچھ دھیان نہیں

جب سنتا ہے احوال مرا یوں کہتا ہے عیاری سے
ہے کون وہ اس سے ہم کو تو کچھ جان نہیں پہچان نہیں

کچھ بن نہیں آتا کیا کیجے کس طور سے ملیے اے ہمدم
وہ دیکھ ہمیں رک جاتا ہے اور ہم کو چین اک آن نہیں

تر دیکھ کے میری آنکھوں کو یہ بات سناتا ہے ہنس کر
ہیں کہتے جس کو چاہ میاں وہ مشکل ہے آسان نہیں

دل پھنس کر اس کی زلفوں میں تدبیر رہائی کی مت کر
کب چھوٹا اس کے دام سے تو وہ دانا ہے نادان نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse