دل وہ شے ہے کہ جو دیکھے تو کھچے یار کے ساتھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل وہ شے ہے کہ جو دیکھے تو کھچے یار کے ساتھ
by قربان علی سالک بیگ

دل وہ شے ہے کہ جو دیکھے تو کھچے یار کے ساتھ
یہ دکاں وہ ہے کہ چلتی ہے خریدار کے ساتھ

ایک دم بھر کے لیے ہم نہ لگایا تھا گلے
عمر ہی کٹ گئی قاتل تری تلوار کے ساتھ

طعنۂ ظلم و ستم لیلیٰ و شیریں پہ عبث
کیا کیا آپ نے عشق دل افگار کے ساتھ

تیغ چل نکلی دم قتل گلے پر میرے
میں نے تشبیہ جو دی ابروئے خم دار کے ساتھ

حشر اغیار کا شداد کے ہوگا ہم راہ
جھوٹ کہتا ہوں تو بس حشر ہو اغیار کے ساتھ

نہ ڈریں خلد میں جاتے ہوئے جو رضواں سے
اس کے دروازے پہ رک جائیں خبردار کے ساتھ

سو گئے بخت شب وعدہ یہ مجھ سے کہہ کر
کون جاگا ہے ترے دیدۂ بے دار کے ساتھ

اس قدر چرب زبانی نہیں اچھی اے شمع
بزم جاناں میں زباں کٹتی ہے گفتار کے ساتھ

حشر میں ظالم و مظلوم جدا ہوں گے دریغ
ہائے واں بھی نہ رہے اس بت عیار کے ساتھ

ہائے افسوس ہے سالکؔ کی جواں مرگی کا
عشق کی بات گئی اس جگر افگار کے ساتھ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse