دل نیں پکڑی ہے یار کی صورت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل نیں پکڑی ہے یار کی صورت
by شاہ مبارک آبرو

دل نیں پکڑی ہے یار کی صورت
گل ہوا ہے بہار کی صورت

کوئی گل رو نہیں تمہاری شکل
ہم نے دیکھیں ہزار کی صورت

تجھ گلی بیچ ہو گیا ہے دل
دیدۂ انتظار کی صورت

حسن کا ملک ہم نیں سیر کیا
کہیں دیکھی نہ پیار کی صورت

اب زمانہ سبھی طرح بگڑا
کیا بنے روزگار کی صورت

وصل کے بیچ ہجر جا ہے بھول
جوں نشے میں خمار کی صورت

اس زمانے کی دوستی کے تئیں
کچھ نہیں اعتبار کی صورت

کچھ ٹھہرتی نہیں کہ کیا ہوگی
اس دل بے قرار کی صورت

مبتذل اور خراب ہو کر کے
اپنی لونڈے نیں خوار کی صورت

آبروؔ دیکھ یار کا برو دوش
دل ہوا ہے کنار کی صورت


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.