دل نہیں ملنے کا پھر میرا ستم گر ٹوٹ کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل نہیں ملنے کا پھر میرا ستم گر ٹوٹ کر
by فروغ حیدرآبادی

دل نہیں ملنے کا پھر میرا ستم گر ٹوٹ کر
چیز یہ ایسی نہیں جڑ جائے گی جو پھوٹ کر

آج ہے دل میں مرے کل ہے عدو کی آنکھ میں
تجھ میں بھر دی ہے یہ ایسی کس نے شوخی کوٹ کر

اپنے بیگانوں کی نظریں پڑ رہی ہیں آپ پر
واہ کیا نام خدا نکلی جوانی پھوٹ کر

اس کا دشمن سے تعلق اس کا دشمن سے ملاپ
سن رہا ہوں آج کل جو کچھ الٰہی چھوٹ کر

اب کہاں نظارۂ گل اب کہاں لطف چمن
ایک آفت میں پڑے ہیں ہم قفس سے چھوٹ کر

بے خبر سوتا ہے کوئی سیج پر آرام سے
ہچکیاں لے لے کے کوئی رو رہا ہے پھوٹ کر

دل نہ پگھلے اور کس کا دل مرا دل حیف ہے
نازنیں پھر نازنیں تجھ سا جو روئے پھوٹ کر

یہ نہ مانے گا نہ سمجھائے سے سمجھے گا کبھی
تجھ پہ دل آیا ہے میرا اے ستم گر ٹوٹ کر

یاس و غم رنج و الم نے کر لیا ہے دل میں گھر
اے خوشیٔ وصل جاناں آئے دن بھی پھوٹ کر

اف رے ذوق جستجو اللہ رے شوق کوئے دوست
گرد رہ پیچھے رہی جاتی ہے مجھ سے چھوٹ کر

خاک اڑتی ہے دل ویراں میں اب رکھا ہے کیا
یاس سب کچھ لے گئی ارمان و حسرت لوٹ کر

کیوں ستاتا ہے فروغؔ مبتلا کو اس قدر
دل نہیں جڑتا نہیں جڑتا ستم گر ٹوٹ کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse