دل ناکام کے ہیں کام خراب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل ناکام کے ہیں کام خراب
by داغ دہلوی

دل ناکام کے ہیں کام خراب
کر لیا عاشقی میں نام خراب

اس خرابات کا یہی ہے مزہ
کہ رہے آدمی مدام خراب

دیکھ کر جنس دل وہ کہتے ہیں
کیوں کرے کوئی اپنے دام خراب

ابر تر سے صبا ہی اچھی تھی
میری مٹی ہوئی تمام خراب

وہ بھی ساقی مجھے نہیں دیتا
وہ جو ٹوٹا پڑا ہے جام خراب

کیا ملا ہم کو زندگی کے سوا
وہ بھی دشوار ناتمام خراب

واہ کیا منہ سے پھول جھڑتے ہیں
خوب رو ہو کے یہ کلام خراب

چال کی رہنمائے عشق نے بھی
وہ دکھایا جو تھا مقام خراب

داغؔ ہے بدچلن تو ہونے دو
سو میں ہوتا ہے اک غلام خراب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse