دل میں پھر وصل کے ارمان چلے آتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل میں پھر وصل کے ارمان چلے آتے ہیں
by بیخود دہلوی

دل میں پھر وصل کے ارمان چلے آتے ہیں
میرے روٹھے ہوئے مہمان چلے آتے ہیں

ان کے آتے ہی ہوا حسرت و ارماں کا ہجوم
آج مہمان پہ مہمان چلے آتے ہیں

آپ ہوں ہم ہوں مئے ناب ہو تنہائی ہو
دل میں رہ رہ کے یہ ارمان چلے آتے ہیں

اس نے یہ کہہ کے مجھے دور ہی سے روک دیا
آپ سے جان نہ پہچان چلے آتے ہیں

روٹھ بیٹھے ہیں مگر چھیڑ چلی جاتی ہے
کبھی پیغام کبھی پان چلے آتے ہیں

یہ رہا حضرت بیخودؔ کا مکاں آؤ چلیں
ابھی دم بھر میں مری جان چلے آتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse