دل میں سو آرمان رکھتا ہوں
Appearance
دل میں سو آرمان رکھتا ہوں
پیارے آخر میں جان رکھتا ہوں
واہ ری عقل تجھ سے دشمن سے
دوستی کا گمان رکھتا ہوں
صبر چھٹ دل سب اور باتوں میں
قابل امتحان رکھتا ہوں
آہ تیرے بھی دھیان میں کچھ ہے
کس قدر تیرا دھیان رکھتا ہوں
تجھ سے ہر بار مل کے میں بے صبر
نہ ملوں پھر یہ ٹھان رکھتا ہوں
صرف میں تو اثرؔ بسان جرس
آہ و نالہ بیان رکھتا ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |