دل میں سو آرمان رکھتا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل میں سو آرمان رکھتا ہوں
by میر اثر

دل میں سو آرمان رکھتا ہوں
پیارے آخر میں جان رکھتا ہوں

واہ ری عقل تجھ سے دشمن سے
دوستی کا گمان رکھتا ہوں

صبر چھٹ دل سب اور باتوں میں
قابل امتحان رکھتا ہوں

آہ تیرے بھی دھیان میں کچھ ہے
کس قدر تیرا دھیان رکھتا ہوں

تجھ سے ہر بار مل کے میں بے صبر
نہ ملوں پھر یہ ٹھان رکھتا ہوں

صرف میں تو اثرؔ بسان جرس
آہ و نالہ بیان رکھتا ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse