دل میں خیالات رنگیں گزرتے ہیں جیوں باس پھولوں کے رنگوں میں رہیے
Appearance
دل میں خیالات رنگیں گزرتے ہیں جیوں باس پھولوں کے رنگوں میں رہیے
وحشت کے جنگل میں کب لگ پریشاں ہو غم کے بھاروں کے سنگوں میں رہیے
جو کوئی کہ ہے دشت وحشت کا ساکن اسے ہوش کے شہریوں سے ہے نفرت
یہ دیوانگی کا نپٹ خوب عالم ہے زنجیر کی جا النگوں میں رہیے
پندار ہستی سیں وہمی خیالوں نے کثرت کی تہمت لگائے ہیں ناحق
دراصل میں جوش طوفان وحدت ہے جیوں موج دریا امنگوں میں رہیے
اس سرو قامت کے جوش محبت میں از بس کہ آزاد سب سیں ہوا ہوں
مانند قمری بدن کوں لگا را کہہ یاہو کے دم بھر ملنگوں میں رہیے
ناحق سراجؔ آہ حسرت کی آتش سیں ہر دم میں سو بار جنباں سبب کیا
یکبار شعلے پہ گرنے کی طرحوں کوں معلوم کرنے پتنگوں میں رہیے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |