دل میں ترے جو کوئی گھر کر گیا
Appearance
دل میں ترے جو کوئی گھر کر گیا
سخت مہم تھی کہ وہ سر کر گیا
وہم غلط کار نے دل خوش کیا
کس پہ نہ جانے وہ نظر کر گیا
جا ہی بھڑا تجھ صف مژگاں سے یار
دل تو مرا زور جگر کر گیا
رات ملا تھا مجھے تنہا رقیب
یار خدا کا ہی میں ڈر کر گیا
فیض ترے وصف بنا گوش کا
اپنے سخن کو تو گہر کر گیا
دیکھ لی ساقی کی بھی دریا دلی
لب نہ ہمارے کبھو تر کر گیا
کیوں کے کراہوں نہ شب و روز میں
درد مرے پہلو میں گھر کر گیا
نفع کو پہنچا یہ تجھے دے کے دل
جان کا اپنی میں ضرر کر گیا
اور غزل اب کوئی سودا تو کہہ
یہ تو یوں ہی تھی میں نظر کر گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |