دل میں ترے اے نگار کیا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل میں ترے اے نگار کیا ہے
by آغا اکبرآبادی

دل میں ترے اے نگار کیا ہے
ہوتا نہیں ہمکنار کیا ہے

آیا جو دم وہ ہے غنیمت
اس زیست کا اعتبار کیا ہے

ہیں سیب سے بھی وہ چھاتیاں سخت
آگے ان کے انار کیا ہے

دنیا کے یہ سب ڈھکوسلے ہیں
تربت کیسی مزار کیا ہے

طاؤس سے چھیڑ چھاڑ کیسی
ہاں اے دل داغدار کیا ہے

جو جو وہ رنج دیں اٹھاؤ
جب دل ہی دیا تو عار کیا ہے

میں چاہتا ہوں اسے نہ چاہوں
دل پر مرا اختیار کیا ہے

مژگاں کا ہے مرے دل میں کھٹکا
اے خوشبوئے نوک خار کیا ہے

مٹی مری خاک میں ملائی
مجھ سے ان کو غبار کیا ہے

دوڑوں تو مجھے صبا نہ پائے
پیدل کیسا سوار کیا ہے

بوسہ کی طلب کہ وصل کا ذکر
فرمائیے ناگوار کیا ہے

ہے کیا آغاؔ تڑپ رہا ہے
کیوں کہتے ہو بار بار کیا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse