دل میں اپنے نہیں کوئی جز یار

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل میں اپنے نہیں کوئی جز یار
by قائم چاندپوری

دل میں اپنے نہیں کوئی جز یار
لیس فی الدار غیرہ دیار

کفر و دیں سے نہیں کچھ آپ کو بحث
سر تسبیح و گردن زنار

داغ اشک آستیں سے اڑتے ہیں
مفت جاتی ہے ہاتھ سے یہ بہار

ہم وہ آفت طلب ہیں ہے جن کو
زخم شمشیر مرہم زنگار

یاد میں کس کی رات رویا ہوں
غرق خوں ہے ہنوز جیب و کنار

آہ کیا کیجے زلف و رخ اس کا
چت چڑھا ہی رہے ہے لیل و نہار

ناصحا ترک کیجے کس کس کا
جیتے جی کو تو سب کچھ ہے درکار

عشق بازی کو کیا کرے گا تو
گو کہ چھوڑا میں اک شراب و قمار

ہم نے دیکھا ہے داغ دل قائمؔ
وقنا ربنا عذاب النار

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse