دل میں اس شوخ کے جو راہ نہ کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل میں اس شوخ کے جو راہ نہ کی
by مومن خان مومن

دل میں اس شوخ کے جو راہ نہ کی
ہم نے بھی جان دی پر آہ نہ کی

پردہ پوشی ضرور تھی اے چرخ
کیوں شب بوالہوس سیاہ نہ کی

تشنہ لب ایسے ہم گرے مے پر
کہ کبھی سیر عید گاہ نہ کی

اس کو دشمن سے کیا بچئے وہ چرخ
جس نے تدبیر خسف ماہ نہ کی

کون ایسا کہ اس سے پوچھے کیوں
پرسش حال داد خواہ نہ کی

تھا بہت شوق وصل تو نے تو
کمی اے حسن تابگاہ نہ کی

عشق میں کام کچھ نہیں آتا
گر نہ کی حرص و مال و جاہ نہ کی

تاب کم ظرف کو کہاں تم نے
دشمنی کی عدو سے چاہ نہ کی

میں بھی کچھ خوش نہیں وفا کر کے
تم نے اچھا کیا نباہ نہ کی

محتسب یہ ستم غریبوں پر
کبھی تنبیہ بادشاہ نہ کی

گریہ و آہ بے اثر دونوں
کس نے کشتی مری تباہ نہ کی

تھا مقدر میں اس سے کم ملنا
کیوں ملاقات گاہ گاہ نہ کی

دیکھ دشمن کو اٹھ گیا بے دید
میرے احوال پر نگاہ نہ کی

مومنؔ اس ذہن بے خطا پر حیف
فکر آمرزش گناہ نہ کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse