دل میں اتری ہے نگہ رہ گئیں باہر پلکیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل میں اتری ہے نگہ رہ گئیں باہر پلکیں
by سید یوسف علی خاں ناظم

دل میں اتری ہے نگہ رہ گئیں باہر پلکیں
کیا خدنگ نگہ یار کی ہیں پر پلکیں

فرط حیرت سے یہ بے حس ہیں سراسر پلکیں
کہ ہوئیں آئنہ چشم کی جوہر پلکیں

یہ درازی ہے کہ وہ شوخ جدھر آنکھ اٹھائے
جا پہنچتی ہیں نگاہوں کے برابر پلکیں

کیا تماشا ہے کہ ڈالے مرے دل میں سوراخ
اور خوں میں نہ ہوئیں ان کی کبھی تر پلکیں

نرگس اس غیرت گلزار سے کیا آنکھ ملائے
آنکھ بھی وہ کہ نہیں جس کو میسر پلکیں

ہے غم مرگ عدو بھی بت کافر کا بناؤ
قطرۂ اشک سے ہیں رشتۂ گوہر پلکیں

چاٹ دیتا ہے ترا دل انہیں خوں ریزی کی
تیز کرتی ہیں اسی سنگ پہ خنجر پلکیں

لی گئیں دل کو وہ دزدیدہ نگاہیں اب یاں
کیا دھرا ہے جو چڑھا لاتی ہیں لشکر پلکیں

کینہ کچھ شرط نہیں ان کی دل آزاری کو
نیش عقرب ہیں تری شوخ ستم کر پلکیں

ہے یہی گریۂ خونیں تو کسی دن ناظمؔ
یوں ہی رہ جائیں گی آپس میں جھپک کر پلکیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse