دل مکدر ہے آئینہ رو کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل مکدر ہے آئینہ رو کا
by آرزو لکھنوی

دل مکدر ہے آئینہ رو کا
نہ ملا رنگ سے پتا بو کا

ہے دم صبح وہ خماریں آنکھ
ایک ٹوٹا طلسم جادو کا

کم جو ٹھہرے جفا سے میری وفا
تو یہ پاسنگ ہے ترازو کا

دل کی بے چینیاں خدا کی پناہ
تکیہ ہٹ ہٹ گیا ہے پہلو کا

کہیں جاتی بہار رکتی ہے
دامن آیا نہ ہاتھ میں بو کا

ہے نئی قید اب یہ آزادی
زور ٹوٹا ہوا ہے بازو کا

آندھی آہوں کی سیل اشکوں کی
اب نہیں کوئی اپنے قابو کا

قہقہہ بھرتی ہے صراحی کیا
ظرف خم سے سوا ہے چلو کا

سوتی قسمت کی نیند اڑاوے گا
نرم تکیہ کسی کے زانو کا

عشق بازی ہے جان کی جوکھم
وہیں مارا پڑا جہاں چوکا

آرزوؔ دل ہے وقف بیم و امید
جھلملاتا چراغ جگنو کا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse