دل مکدر مدام کا نکلا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل مکدر مدام کا نکلا
by داغ دہلوی

دل مکدر مدام کا نکلا
کب یہ آئینہ کام کا نکلا

بحث تھی مے کشی میں زاہد سے
عذر ماہ صیام کا نکلا

یہ سنا ہے کہ اب وہ ہرجائی
صبح آتا ہے شام کا نکلا

دل کے ملنے کی پھر امید نہیں
یہ اگر اس کے کام کا نکلا

واہ کیا کیا تری محبت میں
حوصلہ خاص و عام کا نکلا

سچ تو یہ ہے کہ عاشقی میں داغؔ
ایک ہی اپنے نام کا نکلا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse