دل مکدر مدام کا نکلا
Appearance
دل مکدر مدام کا نکلا
کب یہ آئینہ کام کا نکلا
بحث تھی مے کشی میں زاہد سے
عذر ماہ صیام کا نکلا
یہ سنا ہے کہ اب وہ ہرجائی
صبح آتا ہے شام کا نکلا
دل کے ملنے کی پھر امید نہیں
یہ اگر اس کے کام کا نکلا
واہ کیا کیا تری محبت میں
حوصلہ خاص و عام کا نکلا
سچ تو یہ ہے کہ عاشقی میں داغؔ
ایک ہی اپنے نام کا نکلا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |