دل مرا ٹوٹا تو اس کو کچھ ملال آ ہی گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل مرا ٹوٹا تو اس کو کچھ ملال آ ہی گیا
by شوق قدوائی

دل مرا ٹوٹا تو اس کو کچھ ملال آ ہی گیا
اپنے بچپن کے کھلونے کا خیال آ ہی گیا

حشر میں مظلوم سب چپ رہ گئے منہ دیکھ کر
آخر اس ظالم کے کام اس کا جمال آ ہی گیا

ہنس کے بولا جب پھنسا بالوں میں خوں آلودہ دل
جال پھیلایا تھا میں نے اس میں لال آ ہی گیا

چھپ کے گر ماہ صیام آتا تو مے کیوں چھوٹتی
کیا کروں میں سامنے میرے ہلال آ ہی گیا

دل تھا اس کا لیکن اب ہم مر کے دیں گے حور کو
وہ پشیماں ہے کہ وقت انتقال آ ہی گیا

کانپ اٹھے غصے سے وہ سن کر مری فریاد کو
نغمہ ایسا تھا کہ آخر ان کو حال آ ہی گیا

میری نظروں سے کوئی اے شوقؔ سیکھے جذب عشق
بن کے تل آنکھوں میں اس کے رخ کا خال آ ہی گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse