دل مرا لے کے یہ کہتے ہیں کہ مال اچھا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل مرا لے کے یہ کہتے ہیں کہ مال اچھا ہے  (1895) 
by رنج حیدرآبادی

دل مرا لے کے یہ کہتے ہیں کہ مال اچھا ہے
منتیں خوب ہیں اور ان کا خیال اچھا ہے

وہ عیادت کو مری آ کے یہ فرماتے ہیں
شکر صد شکر کہ بیمار کا حال اچھا ہے

میں یہ کہتا ہوں کہ آغاز محبت ہے خراب
وہ یہ کہتے ہیں کہ محبت کا مآل اچھا ہے

ساتھ یوسف کے تجھے مصر میں گر لے جاتے
انگلیاں تیری طرف اٹھتیں یہ مال اچھا ہے

تیری صورت سے میں دوں کیا مہ کامل کو مثال
اس سے سو درجہ ترا حسن و جمال اچھا ہے

دل کو دزدیدہ نگاہوں سے چرا لے جانا
تم میں اتنا ہی مری جان کمال اچھا ہے

وہ عیادت کے لئے غیر کے گھر جاتے ہیں
ہم مرے جاتے ہیں کمبخت کا حال اچھا ہے

ٹوٹ جانے کا نہ کچھ رنج نہ کھو جانے کا
ہم غریبوں کا یہی جام سفال اچھا ہے

اپنی قسمت میں کہاں راحت و آرام نشاط
رنجؔ دنیا میں یہی ہم کو ملال اچھا ہے

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse