دل مرا دیکھ دیکھ جلتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل مرا دیکھ دیکھ جلتا ہے
by قائم چاندپوری

دل مرا دیکھ دیکھ جلتا ہے
شمع کا کس پہ دل پگھلتا ہے

ہم نشیں ذکر یار کر کہ کچھ آج
اس حکایت سے جی بہلتا ہے

دل مژہ تک پہنچ چکا جوں اشک
اب سنبھالے سے کب سنبھلتا ہے

ساقیا دور کیا کرے ہے تمام
آپ ہی اب یہ دور چلتا ہے

گندمی رنگ جو ہے دنیا میں
میری چھاتی پہ مونگ دلتا ہے

ہے تواضع ضرور دولت کو
ہو ہے خم جو نہال پھلتا ہے

اپنے عاشق کی سوخت پر پیارے
کبھو کچھ دل ترا بھی جلتا ہے

دیکھ کیسا پتنگ کی خاطر
شعلۂ شمع ہاتھ ملتا ہے

آج قائمؔ کے شعر ہم نے سنے
ہاں اک انداز تو نکلتا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse