دل مرا جس سے بہلتا کوئی ایسا نہ ملا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل مرا جس سے بہلتا کوئی ایسا نہ ملا
by اکبر الہ آبادی

دل مرا جس سے بہلتا کوئی ایسا نہ ملا
بت کے بندے ملے اللہ کا بندا نہ ملا

بزم یاراں سے پھری باد بہاری مایوس
ایک سر بھی اسے آمادۂ سودا نہ ملا

گل کے خواہاں تو نظر آئے بہت عطر فروش
طالب زمزمۂ بلبل شیدا نہ ملا

واہ کیا راہ دکھائی ہے ہمیں مرشد نے
کر دیا کعبے کو گم اور کلیسا نہ ملا

رنگ چہرے کا تو کالج نے بھی رکھا قائم
رنگ باطن میں مگر باپ سے بیٹا نہ ملا

سید اٹھے جو گزٹ لے کے تو لاکھوں لائے
شیخ قرآن دکھاتے پھرے پیسا نہ ملا

ہوشیاروں میں تو اک اک سے سوا ہیں اکبرؔ
مجھ کو دیوانوں میں لیکن کوئی تجھ سا نہ ملا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse