دل مرا آج میرے پاس نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل مرا آج میرے پاس نہیں
by میر حسن دہلوی

دل مرا آج میرے پاس نہیں
مجھ میں کچھ ہوش اور حواس نہیں

دل لگایا جہاں جفا دیکھی
کیا بلا عشق مجھ کو راس نہیں

پاس ہے یاس گرد ہے دل کی
اور اب کوئی آس پاس نہیں

آپ تو اپنا عرض کر لے حال
دل ہمیں تاب التماس نہیں

یوں خدا چاہے تو ملا دے اسے
وصل کی پر ہمیں تو آس نہیں

میں بھی کچھ ہو گیا ہوں پژمردہ
دل ہی میرا فقط اداس نہیں

کیا ملے تجھ سے کوئی دل دادہ
آشنائی کی تجھ میں باس نہیں

ہے غفور الرحیم تیری ذات
سب سے ہے یاس تجھ سے یاس نہیں

ایک ڈر ہے تو دوست کا مجھ کو
دشمنوں سے تو کچھ ہراس نہیں

تیرے خاطر یہ سب سے دور ہوا
تو بھی تجھ کو حسنؔ کا پاس نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse