دل محبت مکان ہے گویا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل محبت مکان ہے گویا
by قربان علی سالک بیگ

دل محبت مکان ہے گویا
آرزو کا جہان ہے گویا

خاک میں مل چکے ہم اور اس کو
آج تک بھی گمان ہے گویا

میرے آزار دینے کو وہ شوخ
دوسرا آسمان ہے گویا

کھول دے منہ خموں کے پیر مغاں
آج ہی امتحان ہے گویا

پاؤں آگے نہ اٹھ سکے واں سے
اس گلی کا نشان ہے گویا

تیری تصویر کیوں نہ بول اٹھے
اس میں عاشق کی جان ہے گویا

تیرا چپ چپ یہ بیٹھنا سالکؔ
اک طرح کا بیان ہے گویا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse