دل مت ٹپک نظر سے کہ پایا نہ جائے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل مت ٹپک نظر سے کہ پایا نہ جائے گا
by مرزا محمد رفیع سودا

دل مت ٹپک نظر سے کہ پایا نہ جائے گا
جوں اشک پھر زمیں سے اٹھایا نہ جائے گا

رخصت ہے باغباں کہ تنک دیکھ لیں چمن
جاتے ہیں واں جہاں سے پھر آیا نہ جائے گا

کعبہ ڈہا تو غم نہ کر اے شیخ بت شکن
دل برہمن کا ہے کہ بنایا نہ جائے گا

آنے سے فوج خط کے نہ ہو دل کو مخلصی
بندھوا ہے زلف کا یہ چھٹایا نہ جائے گا

پہنچیں گے اس چمن میں نہ ہم داد کو کبھو
جوں گل یہ چاک جیب سلایا نہ جائے گا

تیغ جفائے یار سے دل سر نہ پھیریو
پھر منہ وفا کو ہم سے دکھایا نہ جائے گا

آوے گا وہ چمن میں نہ اے ابر جب تلک
پانی گلوں کے منہ میں چوایا نہ جائے گا

عمامے کو اتار کے پڑھیو نماز شیخ
سجدے سے ورنہ سر کو اٹھایا نہ جائے گا

زاہد گلے سے مستوں کے باز آنے کا نہیں
تا مے کدے میں لا کے چھکایا نہ جائے گا

ظالم نہ میں کہا تھا کہ اس خوں سے درگزر
سوداؔ کا قتل ہے یہ چھپایا نہ جائے گا

دامان و داغ تیغ کو دھویا تو کیا ہوا
عالم کے دل سے داغ دھلایا نہ جائے گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse