دل مبتلائے لذت آزار ہی رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل مبتلائے لذت آزار ہی رہا
by داغ دہلوی

دل مبتلائے لذت آزار ہی رہا
مرنا فراق یار میں دشوار ہی رہا

ہر دم یہ شوق تھا اسے قربان کیجئے
میں وصل میں بھی جان سے بے زار ہی رہا

احسان عفو جرم سے وہ شرمسار ہوں
بخشا گیا میں تو بھی گنہ گار ہی رہا

ہوتی ہیں ہر طرح سے مری پاسداریاں
دشمن کے پاس بھی وہ مرا یار ہی رہا

دن پہلوؤں سے ٹال دیا کچھ نہ کہہ سکے
ہر چند ان کو وصل کا انکار ہی رہا

زاہد کی توبہ توبہ رہی گھونٹ گھونٹ پر
سو بوتلیں اڑا کے بھی ہشیار ہی رہا

دیکھیں ہزار رشک مسیحا کی صورتیں
اچھا رہا جو عشق کا بیمار ہی رہا

صدقے میں تم نے چھوڑ دیئے ہیں بہت اسیر
میں بھی رہا ہوا کہ گرفتار ہی رہا

لذت وفا میں ہے نہ کسی کی جفا میں ہے
دل دار ہی رہا نہ دل آزار ہی رہا

جلوہ کے بعد وصل کی خواہش ضرور تھی
وہ کیا رہا جو عاشق دیدار ہی رہا

کہتے ہیں جل کے غیر محبت سے داغؔ کی
معشوق اس کے پاس وفادار ہی رہا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse