دل مایوس میں وہ شورشیں برپا نہیں ہوتیں
Appearance
دل مایوس میں وہ شورشیں برپا نہیں ہوتیں
امیدیں اس قدر ٹوٹیں کہ اب پیدا نہیں ہوتیں
مری بیتابیاں بھی جزو ہیں اک میری ہستی کی
یہ ظاہر ہے کہ موجیں خارج از دریا نہیں ہوتیں
وہی پریاں ہیں اب بھی راجا اندر کے اکھاڑے میں
مگر شہزادۂ گلفام پر شیدا نہیں ہوتیں
یہاں کی عورتوں کو علم کی پروا نہیں بے شک
مگر یہ شوہروں سے اپنے بے پروا نہیں ہوتیں
تعلق دل کا کیا باقی میں رکھوں بزم دنیا سے
وہ دل کش صورتیں اب انجمن آرا نہیں ہوتیں
ہوا ہوں اس قدر افسردہ رنگ باغ ہستی سے
ہوائیں فصل گل کی بھی نشاط افزا نہیں ہوتیں
قضا کے سامنے بے کار ہوتے ہیں حواس اکبرؔ
کھلی ہوتی ہیں گو آنکھیں مگر بینا نہیں ہوتیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |