دل لے کے ہمارا جو کوئی طالب جاں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل لے کے ہمارا جو کوئی طالب جاں ہے
by مرزا محمد رفیع سودا

دل لے کے ہمارا جو کوئی طالب جاں ہے
ہم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ جی ہے تو جہاں ہے

ہر ایک کے دکھ درد کا اب ذکر و بیاں ہے
مجھ کو بھی ہو رخصت مرے بھی منہ میں زباں ہے

اس عشق کے ہے تو ہی سزا وار کہ ہر ایک
دل دے کے ترے نام کو جویائے نشاں ہے

جویندۂ ہر چیز ہے یابندہ جہاں میں
جز عمر گزشتہ کہ وہ ڈھونڈو تو کہاں ہے

پیری جو تو جاوے تو جوانی سے یہ کہنا
خوش رہیو مری جان تو جیدھر ہے جہاں ہے

پہنچا نہ کوئی مرغ کبھو اپنے چمن تک
جز طائر حسرت کہ وہ یاں بال فشاں ہے

تجھ سے تو کسو طرح مرا کچھ نہیں چلتا
جز خون کہ آنکھوں سے شب و روز رواں ہے

ساقی تو نظر کیجیو ٹک صبح چمن کو
اس پیر کے جلوے کا بھلا کوئی جواں ہے

سوداؔ کا ترے دشت میں طفلاں سے ہے یہ حال
جیدھر وہ کھڑا ہووے تو جوں سنگ نشاں ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse