دل لے چلا ہے باندھ کے دل بر کے روبرو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل لے چلا ہے باندھ کے دل بر کے روبرو
by داغ دہلوی

دل لے چلا ہے باندھ کے دل بر کے روبرو
جاتا ہے اک اسیر ستم گر کے روبرو

اس بت میں اک خدائی کا جلوہ ہے ورنہ شیخ
سجدہ کئے سے فائدہ پتھر کے روبرو

آنسو بہا رہا ہوں خط یار پڑھ کے میں
یوں دانہ ڈالتا ہوں کبوتر کے روبرو

حاصل ہوئی بھی عقل فلاطوں اگر تو کیا
چلتی نہیں کسی کی مقدر کے روبرو

اے داغؔ ہوگا ہم سے کسی کا جواب کیا
مقدار چشم کیا ہے سمندر کے روبرو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse