دل لیا جس نے بے وفائی کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل لیا جس نے بے وفائی کی
by مصطفٰی خان شیفتہ

دل لیا جس نے بے وفائی کی
رسم ہے کیا یہ دل ربائی کی

تذکرہ صلح غیر کا نہ کرو
بات اچھی نہیں لڑائی کی

تم کو اندیشۂ گرفتاری
یاں توقع نہیں رہائی کی

وصل میں کس طرح ہوں شادی مرگ
مجھ کو طاقت نہیں جدائی کی

دل نہ دینے کا ہم کو دعویٰ ہے
کس کو ہے لاف دل ربائی کی

ایک دن تیرے گھر میں آنا ہے
بخت و طالع نے گر رسائی کی

دل لگایا تو ناصحوں کو کیا
بات جو اپنے جی میں آئی کی

شیفتہؔ وہ کہ جس نے ساری عمر
دین داری و پارسائی کی

آخر کار مے پرست ہوا
شان ہے اس کی کبریائی کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse