دل لیا جان لی نہیں جاتی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل لیا جان لی نہیں جاتی
by بیدم وارثی

دل لیا جان لی نہیں جاتی
آپ کی دل لگی نہیں جاتی

سب نے غربت میں مجھ کو چھوڑ دیا
اک مری بیکسی نہیں جاتی

کیے کہہ دوں کہ غیر سے ملئے
ان کہی تو کہی نہیں جاتی

خود کہانی فراق کی چھیڑی
خود کہا بس سنی نہیں جاتی

خشک دکھلاتی ہے زباں تلوار
کیوں مرا خون پی نہیں جاتی

لاکھوں ارمان دینے والوں سے
ایک تسکین دی نہیں جاتی

جان جاتی ہے میری جانے دو
بات تو آپ کی نہیں جاتی

تم کہو گے جو روؤں فرقت میں
کہ مصیبت سہی نہیں جاتی

اس کے ہوتے خودی سے پاک ہوں میں
خوب ہے بے خودی نہیں جاتی

پی تھی بیدمؔ ازل میں کیسی شراب
آج تک بے خودی نہیں جاتی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse