دل لگے ہجر میں کیوں کر میرا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل لگے ہجر میں کیوں کر میرا
by نظام رامپوری

دل لگے ہجر میں کیوں کر میرا
دل ترا سا نہیں پتھر میرا

یوں تو روٹھے ہیں مگر لوگوں سے
پوچھتے حال ہیں اکثر میرا

راہ نکلے گی نہ کب تک کوئی
تری دیوار ہے اور سر میرا

کہتے ہیں آہ کی دیکھیں تاثیر
نہ ہوا وصل میسر میرا

یہ تو کہہ کون سی تدبیر نہ کی
نہ ہوا تو ہی ستم گر میرا

کیا سنوں اے دل بدظن تیری
دوست ہے تو وہ مقرر میرا

لطف رنجش کے دکھاتا تم کو
کیا کہوں بس نہیں دل پر میرا

انہیں ملنا نہیں مجھ سے منظور
کس کی تقصیر مقدر میرا

پوچھنا کیا ہے چلیں جائیں آپ
زور چلتا نہیں تم پر میرا

غیر کا حال ہے کہنا منظور
کہتے ہیں ذکر ملا کر میرا

رشک دشمن کا گلا کرتا ہوں
ہے قصور اس میں سراسر میرا

خواہش دل کہیں بر آئے نظامؔ
دل کئی دن سے ہے مضطر میرا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse