دل لگی اپنی ترے ذکر سے کس رات نہ تھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل لگی اپنی ترے ذکر سے کس رات نہ تھی
by حیدر علی آتش

دل لگی اپنی ترے ذکر سے کس رات نہ تھی
صبح تک شام سے یاہو کے سوا بات نہ تھی

التجا تجھ سے کب اے قبلۂ حاجات نہ تھی
تیری درگاہ میں کس روز مناجات نہ تھی

اب ملاقات ہوئی ہے تو ملاقات رہے
نہ ملاقات تھی جب تک کہ ملاقات نہ تھی

غنچۂ گل کو نہ ہنسنا تھا تری صورت سے
چھوٹے سے منہ کی سزاوار بڑی بات نہ تھی

ابتدا سے تجھے موجود سمجھتا تھا میں
مرے تیرے کبھی پردے کی ملاقات نہ تھی

اے نسیم سحری بہر اسیران قفس
تحفہ تر نکہت گل سے کوئی سوغات نہ تھی

ان دنوں عشق رلاتا تھا ہمیں صورت ابر
کون سی فصل تھی وہ جس میں کہ برسات نہ تھی

کیا کہوں اس کے جو مجھ پر کرم پنہاں تھے
ظاہری یار سے ہر چند ملاقات نہ تھی

اپنے باندھے ہوئے گاتی تجھے دیکھا پھڑکا
دل ربا شے تھی مری جان تری گات نہ تھی

اک میں مل گئے اے شاہ سوار اہل نیاز
ناز معشوق تھا تو سن کی ترے لات نہ تھی

لب کے بوسہ کا ہے انکار تعجب اے یار
پھیرے سائل سے جو منہ کو وہ تری ذات نہ تھی

کمر یار تھی ازبسکہ نہایت نازک
سوجھتی بندش مضموں کی کوئی گھات نہ تھی

ان دنوں ہوتا تھا تو گھر میں ہمارے شب باش
روز روشن سے کم اے مہر لقا رات نہ تھی

بے شعوروں نے نہ سمجھا تو نہ سمجھا آتشؔ
نکتہ سنجوں کو لطیفہ تھی تری بات نہ تھی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse