دل عشق میں تباہ ہوا یا کہ جل گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل عشق میں تباہ ہوا یا کہ جل گیا
by صفی اورنگ آبادی

دل عشق میں تباہ ہوا یا کہ جل گیا
اچھا ہوا خلش گئی کانٹا نکل گیا

الفت میں اس کی جان گئی دل بھی جل گیا
دشمن کا دو ہی دن میں دوالہ نکل گیا

دل اپنا اس سے مانگنے کو میں جو کل گیا
آنکھیں نکالیں لڑنے کو فوراً بدل گیا

جلتے ہیں غیر اپنا تو مطلب نکل گیا
قسمت سے بات بن بھی گئی داؤ چل گیا

تعریف حسن یار نے اس کو کیا رقیب
رہبر بھی بیچ رستے میں ہم سے بدل گیا

کرتا ہوں عرض ان سے جو چلنے کی میں کہیں
کہتے ہیں کیا دماغ تمہارا بھی چل گیا

بھاری ہے رات ہجر کی بیمار پر ترے
پھر اس کو خوف کچھ نہیں یہ دن جو ٹل گیا

دشمن کے نقش پا کو جو دیتے ہو گالیاں
پیٹو لکیر سانپ تو آیا نکل گیا

کس رنگ میں وہ رہتے ہیں اس کی خبر نہیں
محفل میں ان کی آج میں پہلے پہل گیا

ارمان کیا گئے کہ گیا دل بھی عشق میں
یہ وہ جوا ہے جس میں ہمارا مدل گیا

وہ جلوہ گاہ ناز ہو یا بزم غیر ہو
جنت ہمیں وہیں ہے جہاں دل بہل گیا

دشمن بھی جاں نثار بنے دے کے اپنا دل
حیرت ہے مجھ کو روپیہ کھوٹا بھی چل گیا

انجام عشق دیکھ لیا اپنی آنکھ سے
اب تو صفیؔ دماغ کا تیرے خلل گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse