دل عشق خوش قداں میں جو خواہان نالہ تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل عشق خوش قداں میں جو خواہان نالہ تھا
by شاہ نصیر

دل عشق خوش قداں میں جو خواہان نالہ تھا
دیوانہ وار سلسلہ جنبان نالہ تھا

نالے سے میرے کیا ہے ہوائی کو ہم سری
تیر شہاب رات کو قربان نالہ تھا

ڈھونڈوں نہ کیونکہ دل کو میں اے آہوان دشت
سینے میں وہ تو شیر نیستان نالہ تھا

کرتا تھا جن دنوں یہ فلک ہم سے سرکشی
ناوک زنی کا آہ سے پیمان نالہ تھا

عشق بتاں تھا دل سے جو دم ساز مثل نے
ہر دم اثر میں تابع فرمان نالہ تھا

صیاد کے جگر میں کرے تھا سناں کا کام
مرغ قفس کے سر پہ یہ احسان نالہ تھا

گاڑے فلک پہ کیا یہ دل ناتواں علم
وہ دن گئے جو اوج فراوان نالہ تھا

کل شب کو ذکر تھا جو کسی نیزہ باز کا
عاشق کا تیرے چرخ ثنا خوان نالہ تھا

یاروں کے قافلے کی مجھے جب کہ یاد تھی
سینے میں جوں جرس مرے سامان نالہ تھا

مت پوچھ واردات شب ہجر اے نصیرؔ
میں کیا کہوں جو کار نمایان نالہ تھا

لینے کو اختران فلک سے خراج و باج
ہر آن شعلہ و شرر افشان نالہ تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse