دل شہید رہ دامان نہ ہوا تھا سو ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل شہید رہ دامان نہ ہوا تھا سو ہوا
by حیدر علی آتش

دل شہید رہ دامان نہ ہوا تھا سو ہوا
ٹکڑے ٹکڑے جو گریباں نہ ہوا تھا سو ہوا

برق بے نور ہے اس رخ کی چمک کے آگے
عالم نور کا انساں نہ ہوا تھا سو ہوا

رونے پر میرے ہوا ہنس کے وہ گل شرمندہ
غنچہ ساں سر بہ گریباں نہ ہوا تھا سو ہوا

میں نے رنگیں نہ کیا اس کا تڑپ کر دامن
سر جلاد پہ احساں نہ ہوا تھا سو ہوا

ہو گیا دیکھ کے قاضی بھی طرفدار اس کا
بے گنہ خون مسلماں نہ ہوا تھا سو ہوا

ہر زباں پر مری رسوائی کا افسانہ ہے
نسخۂ شوق پریشاں نہ ہوا تھا سو ہوا

عرق آلودہ جبیں دیکھ کے دل ڈوب گیا
شبنم باغ سے طوفاں نہ ہوا تھا سو ہوا

قتل کر کے مجھے تلوار کو توڑا اس نے
خون ناحق سے پشیماں نہ ہوا تھا سو ہوا

یار کے روئے کتابی کی کروں کیا تعریف
بعد قرآں کے جو قرآں نہ ہوا تھا سو ہوا

آنسو آنکھوں سے نکلتا ہے سو چنگاری ہے
پردۂ دل سے نمایاں نہ ہوا تھا سو ہوا

آتش عشق سے ہے داغ سراپا میرا
آدمی سرو چراغاں نہ ہوا تھا سو ہوا

گرد رہ بن کے ہوا صندل پیشانیٔ یار
ذرہ خورشید درخشاں نہ ہوا تھا سو ہوا

پہروں ہی مصرع سودا ہے رلاتا آتشؔ
تجھے اے دیدۂ گریاں نہ ہوا تھا سو ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse