دل شکستہ حریف شباب ہو نہ سکا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل شکستہ حریف شباب ہو نہ سکا
by اختر شیرانی

دل شکستہ حریف شباب ہو نہ سکا
یہ جام ظرف نواز شراب ہو نہ سکا

کچھ ایسے رحم کے قابل تھے ابتدا ہی سے ہم
کہ ان سے بھی ستم بے حساب ہو نہ سکا

نظر نہ آیا کبھی شب کو ان کا جلوۂ رخ
یہ آفتاب کبھی ماہتاب ہو نہ سکا

نگاہ فیض سے محروم برتری معلوم
ستارہ چمکا مگر آفتاب ہو نہ سکا

ہے جام خالی تو پھیکی ہے چاندنی کیسی
یہ سیل نور ستم ہے شراب ہو نہ سکا

یہ مے چھلک کے بھی اس حسن کو پہنچ نہ سکی
یہ پھول گھل کے بھی اس کا شباب ہو نہ سکا

کسی کی شوخ نوائی کا ہوش تھا کس کو
میں ناتواں تو حریف خطاب ہو نہ سکا

ہوں تیرے وصل سے مایوس اس قدر گویا
کبھی جہاں میں کوئی کامیاب ہو نہ سکا

وہ پوچھتے ہیں ترے دل کی آرزو کیا ہے
یہ خواب ہائے کبھی میرا خواب ہو نہ سکا

تلاش معنیٔ ہستی میں فلسفہ نہ خرد
یہ راز آج تلک بے حجاب ہو نہ سکا

شراب عشق میں ایسی کشش سی تھی اخترؔ
کہ لاکھ ضبط کیا اجتناب ہو نہ سکا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse