دل سلامت اگر اپنا ہے تو دل دار بہت

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل سلامت اگر اپنا ہے تو دل دار بہت
by میر محمدی بیدار

دل سلامت اگر اپنا ہے تو دل دار بہت
ہے یہ وہ جنس کہ جس کے ہیں خریدار بہت

ایک میں ہی ترے کوچے میں نہیں ہوں بیتاب
سر پٹکتے ہیں خبر لے پس دیوار بہت

دیکھیے کس کے لگے ہاتھ ترا گوہر وصل
اس تمنا میں تو پھرتے ہیں طلب گار بہت

کہیں نرگس کو مگر تو نے دکھائیں آنکھیں
نہیں بچتے نظر آتے ہیں یہ بیمار بہت

کیا کروں کس سے کہوں حال کدھر کو جاؤں
تنگ آیا ہوں ترے ہاتھ سے دل دار بہت

اپنے عاشق سے کیا پوچھو تو کیسے یہ سلوک
اور بھی شہر میں ہیں تجھ سے طرحدار بہت

ترے آتے تو کوئی پھول نہ ہوگا سرسبز
کیا ہوا باغ میں گو پھولے تھے گل زار بہت

ایک دن تجھ کو دکھاؤں گا میں ان خوباں کو
دعویٔ یوسفی کرتے تو ہیں اظہار بہت

جرم بوسہ پہ جو بیدارؔ کو مارا مارا
نہ کرو جانے دو اس بات پہ تکرار بہت

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse