دل سرد ہو گیا ہے طبیعت بجھی ہوئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل سرد ہو گیا ہے طبیعت بجھی ہوئی
by آغا شاعر قزلباش

دل سرد ہو گیا ہے طبیعت بجھی ہوئی
اب کیا ہے وہ اتر گئی ندی چڑھی ہوئی

تم جان دے کے لیتے ہو یہ بھی نئی ہوئی
لیتے نہیں سخی تو کوئی چیز دی ہوئی

اس ٹوٹے پھوٹے دل کو نہ چھیڑو پرے ہٹو
کیا کر رہے ہو آگ ہے اس میں دبی ہوئی

لو ہم بتائیں غنچہ و گل میں ہے فرق کیا
اک بات ہے کہی ہوئی اک بے کہی ہوئی

خوں ریز جس قدر ہیں وہ رہتے ہیں سرنگوں
خنجر ہوا کٹار ہوئی یا چھری ہوئی

شاعرؔ خدا کے واسطے توبہ کا کیا قصور
ہے کس کے منہ سے پھر یہ صبوحی لگی ہوئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse