دل زلف بتاں میں ہے گرفتار ہمارا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل زلف بتاں میں ہے گرفتار ہمارا
by راسخ عظیم آبادی

دل زلف بتاں میں ہے گرفتار ہمارا
اس دام سے ہے چھوٹنا دشوار ہمارا

بازار جہاں میں ہیں عجب جنس زبوں ہم
کوئی نہیں اے وائے خریدار ہمارا

تھی داور محشر سے توقع سو تجھے دیکھ
وہ بھی نہ ہوا ہائے طرف دار ہمارا

کیونکر نہ دم سرد بھریں ہم کہ ہر اک سے
ملتا ہے بہت گرم کچھ اب یار ہمارا

تجھ بن اسے یہ سمجھیں کہ ہے شعلۂ دوزخ
گر ہو گل جنت گل دستار ہمارا

راسخؔ یہ پس مرگ بھی ہم راہ رہے گا
ہے یار کا غم یار وفادار ہمارا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse