دل رقیب تو دیکھا مرا جگر دیکھیں
Appearance
دل رقیب تو دیکھا مرا جگر دیکھیں
ادھر کے دیکھنے والے ذرا ادھر دیکھیں
کسی کے حسن پہ ہیں ایسی شیفتہ آنکھیں
پری جو سامنے آئے نہ ایک نظر دیکھیں
ابھی نہائے ہیں کپڑے بدلنے بیٹھے ہیں
مجال کیا ہے ہماری جو ہم ادھر دیکھیں
ہزاروں صورت موسیٰ ہیں طالب دیدار
جو ایک ہو تو وہ دیکھیں کدھر کدھر دیکھیں
ہمارے دل میں جو حسرت ہے جو تمنا ہے
نہ مانیں گے نہ سہی آج عرض کر دیکھیں
کوئی جگہ نہیں خالی ہے تیرے جلوے سے
کہاں کہاں تجھے دیکھیں کدھر کدھر دیکھیں
جو اضطرابئ دل کا نہ ہو یقین ان کو
ہماری طرح سے وہ بھی کسی پہ مر دیکھیں
رقیب آئنہ نوشادؔ اور دل نوشادؔ
وہ ایک دیکھنے والے کدھر کدھر دیکھیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |