دل ربا پہلو سے اب اٹھ کر جدا ہونے کو ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل ربا پہلو سے اب اٹھ کر جدا ہونے کو ہے
by عزیز الحسن غوری

دل ربا پہلو سے اب اٹھ کر جدا ہونے کو ہے
کیا غضب ہے کیا قیامت ہے یہ کیا ہونے کو ہے

دشمنیٔ خلق میری رہنما ہونے کو ہے
اب مرا دست طلب دست دعا ہونے کو ہے

تو نے چاہا تھا برا میرا بھلا ہونے کو ہے
آب خنجر حلق میں آب بقا ہونے کو ہے

آج تو جی بھر کے پی لینے دے اے ساقی مجھے
جان ہی جاتی رہے گی اور کیا ہونے کو ہے

اے دل پر آرزو کر دے سر تسلیم خم
دیکھ کن ہاتھوں سے خون مدعا ہونے کو ہے

شوخ رفتاری کا اپنی دیکھ تو مڑ کر اثر
ساتھ ساتھ اٹھ کر رواں ہر نقش پا ہونے کو ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse