دل دھڑکتا ہے کہ تو یار ہے سودائی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل دھڑکتا ہے کہ تو یار ہے سودائی کا
by اشرف علی فغاں

دل دھڑکتا ہے کہ تو یار ہے سودائی کا
تیرے مجنوں کو کہاں پاس ہے رسوائی کا

برگ گل سے بھی کم اب کوہ غم اس نے جانا
یہ بھروسا تو نہ تھا دل کی توانائی کا

کیجیے چاک گریباں کو بہار آئی ہے
ذکر بے لطف ہے یاں صبر و شکیبائی کا

سرو ثابت قدم اس واسطے گلشن میں رہا
نہیں دیکھا کبھی جلوہ تری رعنائی کا

زور منظور نظر تو تو فغاںؔ رکھتا ہے
میں تو بندہ ہوں تری چشم کی بینائی کا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.