دل دار کی کشش نے اینچا ہے من ہمارا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل دار کی کشش نے اینچا ہے من ہمارا
by سراج اورنگ آبادی

دل دار کی کشش نے اینچا ہے من ہمارا
ہے خاک اس قدم کی شاید وطن ہمارا

اے دوستان جانی دل سیں کرو توجہ
تا جان پاس اپنے پہنچے بدن ہمارا

گر زندگی ہے باقی پھر تم سیں آ ملیں گے
دیدار آخری ہے جو ہے مرن ہمارا

دریائے مدعا کا لائے ہیں تھاہ جب سیں
ہر بوند اشک کا ہے در عدن ہمارا

درکار نہیں ہے پہریں بر میں قبائے زینت
یہ بس ہے خاکساری خاکی برن ہمارا

سب چھوڑ خانما کوں ہیں اس کی جستجو میں
ہے دشت اور بیاباں باغ و چمن ہمارا

مانند کوہ کن ہے بے کل سراجؔ کا دل
شاید کہ مان لیوے شیریں سخن ہمارا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse