دل دار دل اس طرح بہم آئے نظر میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل دار دل اس طرح بہم آئے نظر میں
by میر حسن دہلوی

دل دار دل اس طرح بہم آئے نظر میں
جس طرح گہر آب میں اور آب گہر میں

اک بار بھی دیکھا نہ اسے پاس سے جا کر
آیا ہی نظر وہ تو کہیں راہ گزر میں

ہر چند کہ ہے شام و سحر وہ ہی پر اس بن
وہ لطف نہ اب شام میں ہے اور نہ سحر میں

قسمت سے مدد چاہتا ہوں اتنی کہ ہر وقت
مانند صبا ساتھ رہوں اس کے سفر میں

اک بار تو نالے کی ہو رخصت ہمیں صیاد
پنہاں رکھیں ہم کب تئیں فریاد جگر میں

ہوش و خرد و صبر و تواں اٹھ چلے اک ایک
جاتے ہی ترے چال پڑی دل کے نگر میں

کیدھر کو نکل جاویں حسنؔ کیا کریں ہم آہ
باہر ہی یہ دل اپنا نہ لگتا ہے نہ گھر میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse