دل حسیں ہے تو محبت بھی حسیں پیدا کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل حسیں ہے تو محبت بھی حسیں پیدا کر
by جگر مراد آبادی

پہلے تو حسن عمل حسن یقیں پیدا کر
پھر اسی خاک سے فردوس بریں پیدا کر

یہی دنیا کہ جو بت خانہ بنی جاتی ہے
اسی بت خانے سے کعبے کی زمیں پیدا کر

روح آدم نگراں کب سے ہے تیری جانب
اٹھ اور اک جنت جاوید یہیں پیدا کر

خس و خاشاک توہم کو جلا کر رکھ دے
یعنی آتش کدۂ سوز یقیں پیدا کر

غم میسر ہے تو اس کو غم کونین بنا
دل حسیں ہے تو محبت بھی حسیں پیدا کر

آسماں مرکز تخئیل و تصور کب تک
آسماں جس سے خجل ہو وہ زمیں پیدا کر

دل کے ہر قطرہ میں طوفان تجلی بھر دے
بطن ہر ذرہ سے اک مہر مبیں پیدا کر

بندگی یوں تو ہے انسان کی فطرت لیکن
ناز جس پہ کریں سجدے وہ جبیں پیدا کر

پستئ خاک پہ کب تک تری بے بال و پری
پھر مقام اپنا سر عرش بریں پیدا کر

عشق ہی زندہ و پایندہ حقیقت ہے جگرؔ
عشق کو عام بنا ذوق یقیں پیدا کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse