دل جہاں سے اٹھائے بیٹھے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل جہاں سے اٹھائے بیٹھے ہیں
by قربان علی سالک بیگ

دل جہاں سے اٹھائے بیٹھے ہیں
سب کو دیکھے دکھائے بیٹھے ہیں

چاک دامن یہ کہہ رہا ہے کہ ہم
دل کے ٹکڑے اڑائے بیٹھے ہیں

وہ سر بزم حال کیا پوچھیں
میرے مطلب کو پائے بیٹھے ہیں

اب اجل کیوں کہ آئے گی دیکھوں
وہ عیادت کو آئے بیٹھے ہیں

کرتے ہیں یوں دعا کہ ہم گویا
ہاتھ اثر سے اٹھائے بیٹھے ہیں

اگر آتے ہیں وہ تو آنے دو
ہم بھی آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں

اس کے دل میں اثر کر اے گریہ
غیر کیا گھر بنائے بیٹھے ہیں

اس کے وعدے کو جانتے ہیں ہم
شام سے زہر کھائے بیٹھے ہیں

در سے وحشت زدوں کو خود نہ اٹھا
یہ کوئی ایک جائے بیٹھے ہیں

اب تو لب تک بھی آ نہ اے نالے
ہم تجھے آزمائے بیٹھے ہیں

تم بھی کر جاؤ پائمال کہ ہم
نقش ہستی مٹائے بیٹھے ہیں

کس کو دیکھ اے حضرت سالکؔ
آج کچھ منہ بنائے بیٹھے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse