دل جنس محبت کا خریدار نہیں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل جنس محبت کا خریدار نہیں ہے
by باقی صدیقی

دل جنس محبت کا خریدار نہیں ہے
پہلی سی وہ اب صورت بازار نہیں ہے

ہر بار وہی سوچ وہی زہر کا ساغر
اس پر یہ ستم جرأت انکار نہیں ہے

کچھ اٹھ کے بگولوں کی طرح ہو گئے رقصاں
کچھ کہتے رہے راستہ ہموار نہیں ہے

دل ڈوب گیا لذت آغوش سحر میں
بیدار ہے اس طرح کہ بیدار نہیں ہے

ہم اس سے متاع دل و جاں مانگ رہے ہیں
جو ایک تبسم کا روادار نہیں ہے

یہ سر سے نکلتی ہوئی لوگوں کی فصیلیں
دل سے مگر اونچی کوئی دیوار نہیں ہے

دم سادھ کے بیٹھا ہوں اگرچہ مرے سر پر
اک شاخ ثمر دار ہے تلوار نہیں ہے

دم لو نہ کہیں دھوپ میں چلتے رہو باقیؔ
اپنے لیے یہ سایۂ اشجار نہیں ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse