دل جل کے رہ گئے ذقن رشک ماہ پر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل جل کے رہ گئے ذقن رشک ماہ پر
by تعشق لکھنوی

دل جل کے رہ گئے ذقن رشک ماہ پر
اس قافلہ کو پیاس نے مارا ہے چاہ پر

گیسو کو ناز ہے دل روشن کی چاہ پر
پروانہ یہ چراغ ہے مار سیاہ پر

نیند اڑ گئی گراں ہے یہ شب رشک ماہ پر
بجلی نہ کیوں فلک سے گرے میری آہ پر

ہے یاد خفتگان زمیں کا جو خط سبز
بھولے سے میں قدم نہیں رکھتا گیاہ پر

لٹتا ہے خانۂ دل عاشق بچایئے
بگڑی ہوئی ہے فوج مژہ کس گناہ پر

تاثیر کا ہے خوف انہیں عین شوق میں
ہے دل پہ ہاتھ کان ہیں آواز آہ پر

محشر بپا ہے بند ہیں کشتوں کے راستے
قد باڑھ پر ہے باڑھ ہے تیغ نگاہ پر

کیا آدمی کی خاک کو روندوں میں رحم دل
روتا ہے پائمالیٔ مردم گیاہ پر

کہتے ہو کس کے قلب میں اٹھتا ہے شب کو درد
روتا ہے دل مرا مرے حال تباہ پر

آخر تلاش گور ہوئی دل کو عشق میں
برسوں تباہ ہو کے اب آیا ہے راہ پر

دل کے معاملہ میں نہ ہو دخل غیر کو
لینا جو ہو تو لیجئے اپنی نگاہ پر

اوپر کی سانس لینے کا آزار ہو گیا
جس کی نظر پڑی تری ترچھی نگاہ پر

بخیہ جراحت دل نازک مزاج کا
موقوف ہے حضور کے تار نگاہ پر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse