دل جلوہ گاہ صورت جانانہ ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل جلوہ گاہ صورت جانانہ ہو گیا
by شاہ نصیر

دل جلوہ گاہ صورت جانانہ ہو گیا
شیشہ یہ ایک دم میں پری خانہ ہو گیا

شب کیوں کہ سلطنت نہ کرے تاج زر سے شمع
رشک پر ہما پر پروانہ ہو گیا

کیفیتوں سے گردش چشم بتاں کی دل
شیشہ کبھی بنا کبھی پیمانہ ہو گیا

طغیانی سرشک سے اپنی بھی بعد قیس
دریا کا پاٹ دامن ویرانہ ہو گیا

زنجیر کیوں نہ اس کی قدم بوس ہو بھلا
جو کوئی تیرے عشق میں دیوانہ ہو گیا

یاں تک کیا ہے شہرۂ آفاق عشق نے
قصہ مرا بھی خلق میں افسانہ ہو گیا

کیا روئیے خرابیٔ اقلیم دل کو دیکھ
آنکھوں کے دیکھتے ہی تو کیا کیا نہ ہو گیا

ساقی کدھر پھرے ہے تو تنہا برنگ جام
تجھ بن خراب ان دنوں مے خانہ ہو گیا

آنکھوں سے تجھ کو یاد میں کرتا ہوں روز و شب
بے دید مجھ سے کس لیے بیگانہ ہو گیا

باور نہیں تو اشک مسلسل کو دیکھ لے
دست مژہ میں سبحۂ صد دانہ ہو گیا

کہتے ہیں اس کے سلسلۂ زلف میں نصیرؔ
دل بھی مرید اب صفت شانہ ہو گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse