دل جدا مال جدا جان جدا لیتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل جدا مال جدا جان جدا لیتے ہیں
by امیر مینائی

دل جدا مال جدا جان جدا لیتے ہیں
اپنے سب کام بگڑ کر وہ بنا لیتے ہیں

ہو ہی رہتا ہے کسی بت کا نظارہ تا شام
صبح کو اٹھ کے جو ہم نام خدا لیتے ہیں

مجلس وعظ میں جب بیٹھتے ہیں ہم میکش
دختر رز کو بھی پہلو میں بٹھا لیتے ہیں

ایسے بوسے کے عوض مانگتے ہیں دل کیا خوب
جی میں سوچیں تو وہ کیا دیتے ہیں کیا لیتے ہیں

اپنی محفل سے اٹھائے ہیں عبث ہم کو حضور
چپکے بیٹھے ہیں الگ آپ کا کیا لیتے ہیں

بت بھی کیا چیز ہیں اللہ سلامت رکھے
گالیاں دے کے غریبوں کی دعا لیتے ہیں

شاخ مرجاں میں جواہر نظر آتے ہیں امیرؔ
کبھی انگلی جو وہ دانتوں میں دبا لیتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse