دل جب سے درد عشق کے قابل نہیں رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل جب سے درد عشق کے قابل نہیں رہا
by صفی اورنگ آبادی

دل جب سے درد عشق کے قابل نہیں رہا
اک ناگوار چیز ہے اب دل نہیں رہا

وہ میں نہیں رہا وہ مرا دل نہیں رہا
اب ان کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا

کیا التجائے دید کروں دیکھتا ہوں میں
آئینہ بھی ہمیشہ مقابل نہیں رہا

اب وہ خفا ہوئے ہیں تو یوں بھی ہے اک خوشی
مرنا ہمارے واسطے مشکل نہیں رہا

دنیا غرض کی رہ گئی اب اس سے کیا غرض
چلئے کہ لطف شرکت محفل نہیں رہا

سن سن کے اہل عشق و محبت کے واقعات
دنیا کا کوئی کام بھی مشکل نہیں رہا

دنیا کے نیک و بد پہ مری رائے کچھ نہیں
اب تک ادھر خیال ہی مائل نہیں رہا

مجھ سے نہ پوچھو حسرت آرائش جمال
آئینہ بن کے ان کے مقابل نہیں رہا

اک ناامید کے لئے اتنا نہ سوچئے
آزردہ دل رہا بھی تو بے دل نہیں رہا

وہ جان لے چکیں تو کوئی ان سے پوچھ لے
اب تو کچھ اس غریب پہ فاضل نہیں رہا

آیا نہ خواب میں بھی کبھی غیر کا خیال
غفلت میں بھی میں آپ سے غافل نہیں رہا

بے بندگی بھی اس کی رہی بندہ پروری
ملتا رہا اگرچہ میں سائل نہیں رہا

وہ ہاتھ ہیں صفیؔ مجھے اک آستیں کا سانپ
گردن میں دوست کے جو حمائل نہیں رہا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse