دل تو حاضر ہے اگر کیجئے پھر ناز سے رمز

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دل تو حاضر ہے اگر کیجئے پھر ناز سے رمز
by عبدالرحمان احسان دہلوی

دل تو حاضر ہے اگر کیجئے پھر ناز سے رمز
ہیں ترے ناز کے صدقے اسی انداز سے رمز

رمز و ایما و کنائے تجھے سب یاد ہیں یار
ہم تو بھولے ہیں غم غمزۂ غماز سے رمز

اپنی نافہمی سے میں اور نہ کچھ کر بیٹھوں
اس طرح سے تمہیں جائز نہیں اعجاز سے رمز

دل کو تو سہج میں لیوے گا یہ میں جان چکا
یہی نکلی ہیں تری سہج کی آواز سے رمز

ہم جئیں یا کہ مریں کچھ نہیں غم شوق سے آپ
مسند ناز پہ فرمائیے اعزاز سے رمز

میں اسی دم تری تروار سے کاٹوں گا گلا
تیغ دکھلا کے میاں عاشق جاں باز سے رمز

باز جدم سے در عدل شہ عالم ہے
بچۂ قاز بھی کرتا ہے یہاں باز سے رمز

کیا تعجب ہے اگر مردۂ صد سالہ جئیں
کم نہیں میرے مسیحا کے بھی اعجاز سے رمز

ہے تجھے خانہ خرابی ہی اگر مد نظر
کیجیو اے فلک اس خانہ بر انداز سے رمز

رمز احساںؔ سے ہے یعنی کہ غزل اور بھی پڑھ
سیکھ جائے کوئی اس چشم فسوں ساز سے رمز

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse